آج کے اپنے کالم میں ذاتی یاددہانیوں کے حوالےسے میں کہنا چاہوں گا کہ ہم اور ہمارا جسم مٹی سے بنا ہے اس کی تمام ضروریات مٹی سے پوری کی گئی ہیں۔ روح آسمان سے نازل ہوئی ہے‘ یہ امر ربی ہے اور دل اس کامقام ہے۔ روح کی غذا قرآن پاک ہے تو میں جب اپنا جائزہ لیتا ہوں تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم مٹی کے اس جسم کیلئے آسائش کا سارا سامان تو کرتے ہی ہیں لیکن اس روح کو ہم بھول جاتے ہیں۔ حکیم صاحب جناب حکیم فیروزالدین اجملی (مرحوم) موٹرسائیکلوں کی سروس والی ورکشاپس میں جاتے اور وہاں پر کسٹمرز سے پوچھتے کہ کیا آپ کاموٹرسائیکل خراب ہے تو اکثر کا جواب ہوتا جی نہیں ہم صرف ٹیوننگ کیلئے آئے ہیں۔ حکیم صاحب پھر پوچھتے اس میں کوئی خرابی تھی کہتے کہ نہیں بلکہ ہم اس لیے اسے یہاں لائے ہیں کہ اس کا پلگ صاف ہوجائے اس کا مکمل چیک اپ ہوجائے اور یہ رواں دواں رہے تاکہ پٹرول زیادہ نہ کھائے وغیرہ وغیرہ تو حکیم صاحب ان سے کہتے کہ اس ساٹھ ستر ہزار کے موٹرسائیکل کی سنبھال کیلئے آپ یہاں خود موجود ہیں‘ آپ نے پیسے خرچ کیے ہیں‘ وقت خرچ کیا ہے۔ آپ کی یہ تین چیزیں مل کرآپ کے موٹرسائیکل کے انجن کی عمر کو بڑھارہی ہیں اور اس کی کارکردگی کو قائم رکھنے اور بہتر بنانے میں معاون ہورہی ہیں۔ یہ توہوا موٹرسائیکل کی سنبھال کامعاملہ۔ اب اس میں پٹرول خالص ہو یا مٹی کا تیل ملا ہوا تو آدمی کہے گا نہیں جی پٹرول تو خالص ہی ہونا چاہیے۔
حکیم صاحب کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ پھر صحیح پٹرول کے لیے تو صحیح پٹرول پمپ تک جانا ہوگا۔ وہ کہتا کہ ہاں جی ظاہر ہے۔ تو حکیم صاحب کہتے ہیں کہ اس کو اتنا باریکی کے ساتھ جاننے کے باوجود جبکہ آپ سکول کالج کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں‘
دیہاتی آدمی ہیں یا آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں تب بھی اس کی اتنی باریکیوں سے آپ آگاہ ہیں۔ کیا اپنے جسم اور روح کا حال چال بھی لیتے دیتے ہیں۔ کسی کھیل کے میدان میں جاتے ہیں‘ اپنے قریبی کسی ہیلتھ کلب میں‘ پلے گراؤنڈ میں‘ کسی جمخانہ میں‘ کہیں سیروتفریح کیلئے بھی کچھ مال جان خرچ کرتے ہو‘ تو وہ کہتے کہ نہیں تو حکیم صاحب ان کی توند پکڑ کر ان کی موٹی کمر پر ہاتھ رکھ کر کہتے ’’حدیث مبارکہ کا مفہوم یوں ہے کہ ’’آپ ﷺ جس کا پیٹ بڑھا ہوا دیکھتے تو اس کو تھام کر فرماتے کہ یہ وہ ہے جو تو نے ضرورت سے زائد کھالیا اور جمع کرلیا‘‘۔پھر حکیم صاحب فرماتے: آپ کے جسم کو زندہ رکھنے والی چیز روح ہے اور روح کے بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ یہ امر ربی ہے‘ اللہ کا محل ہے‘ مقام ہے تو اس کیلئے جس صحبت میں میں اٹھنے بیٹھنے کو کہا گیا وہ علماء‘ صادقین کی محفل ہے یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ جو معاملات کے صاف ہوں ان میں اٹھو بیٹھو تاکہ صاف ستھری اور مخلصانہ بات کہنے سننے کا
معاملہ ہو اور جہاں بدگمانی اور وساوس نہ ہو‘ جہاں لالچ نہ ہو جہاں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ حکیم صاحب اکثر اپنے پاس شکار کی غرض سے آنے والے دوستوں سے کہتے کہ اگر آپ میرے پاس صرف شکاری ہونے کے ناطے سے آئے ہیں توآج اپنا ریکارڈ درست کرلیجئے کہ ہماری ملاقات محض اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ہوگی اور ہمارا ملنا بچھڑنا بھی اللہ تعالیٰ کیلئے ہوگا ایک دوسرے کو کہنا سننا اللہ تعالیٰ کیلئے ہوگا۔ آپ مجھے صاف ستھری اور اچھی بات کہیں گے اور ایسی ہی مجھ سے سنیں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ تعلقات برقرار رہیں گے۔ تو میں یہ یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اس بے مہر دور میں‘ بے برکت دور میں جس سے ہم گزررہے ہیں اپنے آپ کو مضبوط اور توانا رکھنا اور مخلوق کی محتاجی و بیماری سے بچنا‘ ایسی یاددہانیاں ہیں جو خدارا آپ مجھے کرواتے رہیں اور میں آپ کو یہ یاددہانی کرواتارہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں